Monday 27 June 2016

عزت

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

بے غیرت، بے شرم تمہیں پیدا ہوتے ہی مار کیوں نا دیا، تمہیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا کہ خاندان کی عزت خاک میں ملاو
ہم شریف لوگ ہیں اور ہماری بیٹیاں ایسی حرکتیں نہیں کرتی پھرتی جو تم کر رہی ہو
گھر میں بیٹھو دوبارہ قدم بھی باہر نکالا تو ٹانگیں توڑ دوں گا
یا خدایا کیسی گھٹیا اولاد پیدا کی ہے میں نے جو ہمارے خاندان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عثمانی صاحب دھاڑ رہے تھے

خاندان کی شرافت کی کہانیاں ان کے پاس ہر وقت موجود ہوتی تھیں، یہی کہ ان کی والدہ با پردہ ڈولی کے بغیر گھر سے نہی نکلتی تھیں جس میں بھاری پتھر اس مقصد کو رکھے جاتے کہ کہاروں کو خاتون کے اصل وزن کا اندازہ تک نہ ہو،
یہی کہ ہمارے ہاں کی عورتیں حکیم کو نبض بھی آٹے میں ہاتھ لپیٹ دکھاتی تھیں
اور یہ کہ تمہاری ماں نے بھی تمام عمر میری اجازت کے بغیر قدم باہر نہی نکالا تھا، عثمانی صاحب اب اپنی خاندانی شرافت پر تقریر کر رہے تھے
کبھی کوئی قصہ مردوں کی شرافت کا بھی سنا دیا کرتے نیلم نے دل ہی دل میں کہا
انیس بیس سال کی نیلم عثمانی، کالج میں ہو تو بلا کا اعتماد، آنکھوں میں ذہانت کی بے پناہ چمک، کالج کے پہلے ہی سال سے اس کی کارکردگی تمام اساتذہ کی نظروں میں آ چکی تھی اور فورتھ ایئر تک آتے آتے صرف اسی کے نام کا تو ڈنکا بجتا تھا، انٹر کالجز تقریری مقابلوں میں کئی انعام جیت چکی، دلائل اور اعتماد سے مخالف فریق کی دھجیاں بکھیر دینے والی نیلم عثمانی کو گھر آتے ہی باپ کی شرافت کے سانچے میں ڈھل جانا ہوتا تھا، کوتاہی کی تو بلکل گنجائش نہ تھی
پتا نہیں اس نے عثمانی صاحب کی ساری تقریر سنی بھی تھی یا نہی کہ وہ تو پہلے تھپڑ پر زمین بوس ہوئی، گھٹنوں میں سر دیئے گٹھڑی سی بنی بیٹھی تھی
قصور اس کا ہی تو تھا کہ اس نے بغاوت کی تھی خاندانی روایات سے، باپ کی کھینچی ہوئی لکیروں سے، شرافت کے ڈھونگ سے
اس کو حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے لیکن اس نے یہ فیصلہ خود کیا
یہ کیسے قبول کیا جا سکتا تھا،
ہمارے ہاں دوسری برادری میں شادی نہیں کی جاتی، اس کے باپ نے قطعی لہجے میں کہا
لیکن میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ابو، وہ پہلی بار بولی تھی اور حیران تھی اپنی جرات پر
پہلی بار اس نے باپ کے سامنے بولنے ہمت کی تھی، شاید اس لیے کہ اعتماد تھا اپنے فیصلے پر یا شاید اس لیے کہ یہی آخری راستہ تھا جو اس کی خوشیوں کی منزل کو جاتا تھا، اب بھی نا بولتی تو کب
وہ ڈٹی رہی اپنے فیصلے پر

زبانی و جسمانی سارے ہتھیار آزمائے گئے لیکن وہ اپنے فیصلے پرمضبوط تھی اس لیے کہ یقین تھا اس دوسرے ہاتھ پر جس نے اس کا ہاتھ تھاما
خوشی کے چند لمحے ہی تو طاقت تھے جو اپنے چھوٹے سے خوشیوں بھرے گھر کی پلاننگ کرتے گزارے تھے، کیا کیا نہی سوچا تھا لان میں اگانے والے پودوں سے لے کر گھر کی آرائش تک ساری باتیں جزیات کے ساتھ دماغ میں نقش تھیں، وہ اکثر سوچ کر مسکرا دیتی تھی
اب یہ کچہری گھر میں روز لگتی، عثمانی صاحب جب مار پیٹ کر کے تھک جاتے تو جذباتی تقریر شروع ہو جاتی خاندانی شرافت کی
سوال ایک ہی ہوتا کیا آئندہ اس کا نام لو گی؟
اور جواب بھی ایک ہی ، جذبات سے عاری سپاٹ لہجے میں وہ صرف اتنا کہتی "ہاں" اور دوبارہ سر گھٹنوں میں لینا پڑتا مکوں گھونسوں کی بارش سے بچنے کے لیے
جب یہ سارے ہتھیار کند ثابت ہوئے تو ایک دن ماں چپکے سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی، عثمانی صاحب کی روایات کی خاموشی میں صدیوں سے بندھی اس کی ماں اب بولنے پر مجبور تھی۔
ہاتھ جوڑ کر بیٹی سے التجا کی کہ اب خاندان کی عزت بچانا اسی کے ذمہ ہے
نا جانے ماں کے لہجے میں کیا تھا، وہ ڈھے گئی، ساری مزاحمت ایک لمحے میں ہوا ہو گئی
اب خاندان کی ناک کٹنے سے بچانا اس کی ذمےداری تھی، خاندان کی ناک بس خاندان کی ناک
یہ الفاظ اس کے لاشعور میں کہیں اٹک کے رہ گئے

اس دن کے بعد ماں باپ نے اس کو کبھی روتے نا دیکھا، اس دن بھی نہیں جب ڈولی میں بیٹھی، وہ کون تھا کیسا تھا کیا کرتا تھا کسی بھی سوال سے غرض نہی تھی، اسے تو بس ماں کے باندھے ہاتھوں کی لاج رکھنی تھی، بس خاندان کی ناک بچانی تھی
اور پھر اگلے پندرہ برس اس کی روح تو چیختی رہی لیکن اس کی آواز نہ نکلی، ہر لمحہ وبال جان رہا
بہت کوشش کی ماضی کو دفنانے کی لیکن کسی سے کہے یہ آخری الفاظ کہ "کسی کا لمس مجھے تمہاری یاد دلائے گا" یاد داشت سے محو نا ہوتے تھے اور اس کی اذیت کم نا ہوتی
اپنے شوہر، سسرال بچوں ہر ایک کی ضروریات کا خیال رکھا اپنی تمام ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے نبھائیں بیوی ہونے کے تمام فرائض پورے کیے
لیکن وہ احساسات جن پر اختیار نہ تھا کیا ان کی بھی گناہ گار میں ہوں ؟
کیا میں نے اچھی بیٹی اچھی بہو اچھی ماں اچھی بیوی۔ ۔ ۔ ۔ ہاں شاید اچھی بیوی بھی ہونے حق ادا نہی کیا؟ اپنے اندر کی اذیت سے ہراساں ہو کر وہ اکثر سوچتی
وقت زخموں کو بھر دیتا ہے،  وقت کے ساتھ ساتھ تکلیف کی شدت کم ہونے لگتی ہے، پھر محبت کا تو معاملہ ہی اور ہے کہ اسکا زخم اگر تکلیف دیتا بھی ہے تو ایک الگ ہی طرح کی لذت بھی دیتا ہے۔ ایسا نشہ کہ انسان اپنے زخموں کو خود ہی کریدتا رہتا کبھی تنہائی میں کبھی کسی کے سامنے
وقت ضرور زخموں کو بھر دیتا لیکن ایک دن وہ گھر میں معمول کے کاموں میں مصروف تھی ماں باپ کو اپنے گھر کی دہلیز پہ کھڑے دیکھا
بہت کم، ہاں بہت کم واسطہ رکھا تھا شادی کے بعد سے انہوں نے اپنی بیٹی سے
امی ابو آپ ٹھیک تو ہیں؟ ان کو بیٹھاتے ہی چہرے پر نمایاں ہوتی پریشانی بھانپتے ہوئے اس نے پوچھا
کبھی ماں کے روہانسے چہرے کو دیکھتی کبھی باپ کی جھکی نظروں کو
بیٹی تمہارا بھائی کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، ماں نے جھجکتے ہوے بتانا شروع کیا ہم کئی بار ان کے گھر گئے لیکن انہوں نے صاف منع کر دیا کہ وہ برادری سے باہر رشتہ نہی کرتے
"برادری سے باہر رشتہ"ماضی کا اک سایہ سا لپکا اس کے ذہن میں لیکن وہ ہمہ تن گوش سن رہی تھی
تمہارے بھائی نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفاظ ماں کی زبان کا ساتھ نہی دے رہے تھے
تمہارے بھائی نے چھپ کر شادی کر لی اس سے بیٹی، عثمانی صاحب نے بات مکمل کی
اب لڑکی والوں نے اغوا کا مقدمہ بنا دیا ہے
بیٹی وہ تمہاری کولیگ کے جاننے والے ہیں، تم ہی ان کو راضی کر سکتی ہو مقدمہ واپس لینے پر، تم ہی ہمارے خاندان کی عزت بچا سکتی ہو اس سے پہلے کہ بات باہر نکلے، تم ہی ہمارے خاندان کی ناک کٹنے سے بچا سکتی ہو، عثمانی صاحب کے لہجے مین التجا تھی
اس کے ذہن میں کوئی سوال نہیں تھا
اسے تو بس ایک بار پھر والدین کی عزت بچانی تھی