Friday 9 December 2016

لوگو! میں بیمار ہوں

اداب
تحریر کے شروع میں رائج زمانی روایات کے عین مطابق ہم ایک وارننگ جاری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ کرداروں میں کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ روز ایک دوست نے فیس بک کا استعمال کرتے ہوے اپنی دیوار پر کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہونے کا اعلان تحریر فرمایا اور احباب سے ضروری طبی مشورہ طلب کیا اور بیماری کے رد کے لیے مناسب امکانات پر بحث مباحثہ کی درخواست کی

بیماری کی تفصیل ہم جانا نہیں چاہتے,  سچ کہوں تو ہم جا ہی نہی سکتے کہ فرنگی زبان میں لکھے کچھ ناشناسا لفظوں کے مطلب سے نابلد ہیں
دوست کا تعلق چونکہ اس صنف سے ہے جن کو برابری کے حقوق بھی چاہیے ہیں اور تندور پر روٹیاں بھی باقیوں سے پہلے لینی ہیں کہ لیڈیز فرسٹ
جنہیں گھر میں برابر کا درجہ تو چاہیے ہے لیکن آٹا پِسوانے کبھی نا جائیں گی
جنہیں بس میں میری ہی خالی کی ہوئی سیٹ پر بیٹھ کر مجھے ہی خطبہ دینا ہے,,

ہاں وہی گاڑی کے دو پہیوں والا

بہرحال چونکہ صنف نازک کے معاملہ میں من حیث القوم جذباتی ہیں تو محض چند ہی لمحوں میں دوستوں نے اپنے گراں قدر مشوروں,  ٹوٹکوں دعاوں سے اتھل پتھل مچا دی
کچھ احباب نے تو اتنے دکھی دلوں سے اتنا رو رو کر دعائیں مانگی کہ ان کی فیس بکی دیوار پر دیوار گریہ ہونے کا گمان گزرا
آنسوؤں کو  لڑیاں رواں تھیں,  امکان تھا کہ کچھ دیر یونہی پوسٹ کو تکتے رہے تو موبائل سے پانی جاری ہوجاتا

کچھ ہی دیر میں رش اتنا بڑھا کہ لوگوں کو قطار میں لگ کر باری کا انتظار کر کے اپنے مشورے اور پیغامات پہنچائے
مقامی جڑی بوٹیوں کے ایسے ایسے مرکبات شرطیہ علاج کے دعوں کے ساتھ پیش کیے گئے کہ جالینوس کی روح تڑپ اٹھی

ایسی ایسی دعائیں سامنے آئیں کہ مقامی پیش اماموں کو اپنی روزی کی فکر لاحق ہوگئی
ٹوٹکوں کے معیار اس انتہا تک جا پہنچے کہ زبیدہ آپا کو فوراً ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا پڑا

ملکی ڈاکٹروں نے ہنگامی اجلاس منعقد کیے
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے اعزازی ڈگریاں جاری کرنے کا اعلان کیا
ہنگامہ خیزی کے اس دور میں خاکسار نے بھی مقامی لاریوں میں بار ہا سفر کے دوران نابغہ روزگار حکیموں اور سنیاسیوں کے عالمانہ خطبوں سے کشید کردا علم کو تازہ کیا
ذہن میں کچھ مجعونون,  مربہ جات,  خمیرا گاؤ زبان اور اطریفل استوخردوس نامی دواؤں کو لیے میدان میں میں آن ٹپکا لیکن مقابلہ بہرحال سخت تھا
بات دور نکل گئی امید کامل ہے کہ وہ صحت یاب ہوچکی ہوں گی
نہ بھی ہوئی ہوں تو جتنے مشورے,  ٹوٹکے دعائیں دوائیں ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کے جم غفیر کی طرف سے موصول ہوچکی ہیں بندہ اخلاقاً ہی اپنے صحت یاب ہونے کا اعلان کر چکتا
اب آپ یہ اندازہ نا لگائیے گا کہ میں کوئی مردانہ حقوق کا علمبردار جذباتی وکیل ہوں جو "حقوقِ صنفِ کرخت" نامی این جی او چلاتا ہوں
میں تو وہ مظلوم ہوں جو پچھلے تین دن سے نزلہ زکام کھانسی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوں اور کسی نے جھوٹے منہ بھی نہی پوچھا "ہاں بھئی کاکا کِداں؟؟؟؟  کی حال آ تیرا"
بس دنیا کی بے ثباتی پر,  خواتین کی بے حسابی پر,  نیلی آنکھوں کی کمیابی پر نوحہ خواں ہوں

قیامت

خیال خود تک ہی رکھے ہیں میں نے سارے

کبھی لفظ کاغذ پہ  اتاروں تو قیامت آئے

تیر اس کے بھی حصے کے مجھ پر ہی برسے

کبھی میں جو نا سہاروں تو  قیامت آئے

وہم, کہ ہنگامے ہیں سارے میرے ہی دم سے

رات مٹی میں جو گزاروں تو  قیامت آئے

میرے اندر کے سناٹے مجھے سونے نہیں دیتے

خود کو اب میں جو پکاروں تو قیامت آئے

مجھ میں اس شدت سے پیوست ہیں باتیں اسکی
اس کی یادیں جو نتھاروں تو قیامت  آئے

Monday 27 June 2016

عزت

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

بے غیرت، بے شرم تمہیں پیدا ہوتے ہی مار کیوں نا دیا، تمہیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا کہ خاندان کی عزت خاک میں ملاو
ہم شریف لوگ ہیں اور ہماری بیٹیاں ایسی حرکتیں نہیں کرتی پھرتی جو تم کر رہی ہو
گھر میں بیٹھو دوبارہ قدم بھی باہر نکالا تو ٹانگیں توڑ دوں گا
یا خدایا کیسی گھٹیا اولاد پیدا کی ہے میں نے جو ہمارے خاندان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عثمانی صاحب دھاڑ رہے تھے

خاندان کی شرافت کی کہانیاں ان کے پاس ہر وقت موجود ہوتی تھیں، یہی کہ ان کی والدہ با پردہ ڈولی کے بغیر گھر سے نہی نکلتی تھیں جس میں بھاری پتھر اس مقصد کو رکھے جاتے کہ کہاروں کو خاتون کے اصل وزن کا اندازہ تک نہ ہو،
یہی کہ ہمارے ہاں کی عورتیں حکیم کو نبض بھی آٹے میں ہاتھ لپیٹ دکھاتی تھیں
اور یہ کہ تمہاری ماں نے بھی تمام عمر میری اجازت کے بغیر قدم باہر نہی نکالا تھا، عثمانی صاحب اب اپنی خاندانی شرافت پر تقریر کر رہے تھے
کبھی کوئی قصہ مردوں کی شرافت کا بھی سنا دیا کرتے نیلم نے دل ہی دل میں کہا
انیس بیس سال کی نیلم عثمانی، کالج میں ہو تو بلا کا اعتماد، آنکھوں میں ذہانت کی بے پناہ چمک، کالج کے پہلے ہی سال سے اس کی کارکردگی تمام اساتذہ کی نظروں میں آ چکی تھی اور فورتھ ایئر تک آتے آتے صرف اسی کے نام کا تو ڈنکا بجتا تھا، انٹر کالجز تقریری مقابلوں میں کئی انعام جیت چکی، دلائل اور اعتماد سے مخالف فریق کی دھجیاں بکھیر دینے والی نیلم عثمانی کو گھر آتے ہی باپ کی شرافت کے سانچے میں ڈھل جانا ہوتا تھا، کوتاہی کی تو بلکل گنجائش نہ تھی
پتا نہیں اس نے عثمانی صاحب کی ساری تقریر سنی بھی تھی یا نہی کہ وہ تو پہلے تھپڑ پر زمین بوس ہوئی، گھٹنوں میں سر دیئے گٹھڑی سی بنی بیٹھی تھی
قصور اس کا ہی تو تھا کہ اس نے بغاوت کی تھی خاندانی روایات سے، باپ کی کھینچی ہوئی لکیروں سے، شرافت کے ڈھونگ سے
اس کو حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے لیکن اس نے یہ فیصلہ خود کیا
یہ کیسے قبول کیا جا سکتا تھا،
ہمارے ہاں دوسری برادری میں شادی نہیں کی جاتی، اس کے باپ نے قطعی لہجے میں کہا
لیکن میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ابو، وہ پہلی بار بولی تھی اور حیران تھی اپنی جرات پر
پہلی بار اس نے باپ کے سامنے بولنے ہمت کی تھی، شاید اس لیے کہ اعتماد تھا اپنے فیصلے پر یا شاید اس لیے کہ یہی آخری راستہ تھا جو اس کی خوشیوں کی منزل کو جاتا تھا، اب بھی نا بولتی تو کب
وہ ڈٹی رہی اپنے فیصلے پر

زبانی و جسمانی سارے ہتھیار آزمائے گئے لیکن وہ اپنے فیصلے پرمضبوط تھی اس لیے کہ یقین تھا اس دوسرے ہاتھ پر جس نے اس کا ہاتھ تھاما
خوشی کے چند لمحے ہی تو طاقت تھے جو اپنے چھوٹے سے خوشیوں بھرے گھر کی پلاننگ کرتے گزارے تھے، کیا کیا نہی سوچا تھا لان میں اگانے والے پودوں سے لے کر گھر کی آرائش تک ساری باتیں جزیات کے ساتھ دماغ میں نقش تھیں، وہ اکثر سوچ کر مسکرا دیتی تھی
اب یہ کچہری گھر میں روز لگتی، عثمانی صاحب جب مار پیٹ کر کے تھک جاتے تو جذباتی تقریر شروع ہو جاتی خاندانی شرافت کی
سوال ایک ہی ہوتا کیا آئندہ اس کا نام لو گی؟
اور جواب بھی ایک ہی ، جذبات سے عاری سپاٹ لہجے میں وہ صرف اتنا کہتی "ہاں" اور دوبارہ سر گھٹنوں میں لینا پڑتا مکوں گھونسوں کی بارش سے بچنے کے لیے
جب یہ سارے ہتھیار کند ثابت ہوئے تو ایک دن ماں چپکے سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی، عثمانی صاحب کی روایات کی خاموشی میں صدیوں سے بندھی اس کی ماں اب بولنے پر مجبور تھی۔
ہاتھ جوڑ کر بیٹی سے التجا کی کہ اب خاندان کی عزت بچانا اسی کے ذمہ ہے
نا جانے ماں کے لہجے میں کیا تھا، وہ ڈھے گئی، ساری مزاحمت ایک لمحے میں ہوا ہو گئی
اب خاندان کی ناک کٹنے سے بچانا اس کی ذمےداری تھی، خاندان کی ناک بس خاندان کی ناک
یہ الفاظ اس کے لاشعور میں کہیں اٹک کے رہ گئے

اس دن کے بعد ماں باپ نے اس کو کبھی روتے نا دیکھا، اس دن بھی نہیں جب ڈولی میں بیٹھی، وہ کون تھا کیسا تھا کیا کرتا تھا کسی بھی سوال سے غرض نہی تھی، اسے تو بس ماں کے باندھے ہاتھوں کی لاج رکھنی تھی، بس خاندان کی ناک بچانی تھی
اور پھر اگلے پندرہ برس اس کی روح تو چیختی رہی لیکن اس کی آواز نہ نکلی، ہر لمحہ وبال جان رہا
بہت کوشش کی ماضی کو دفنانے کی لیکن کسی سے کہے یہ آخری الفاظ کہ "کسی کا لمس مجھے تمہاری یاد دلائے گا" یاد داشت سے محو نا ہوتے تھے اور اس کی اذیت کم نا ہوتی
اپنے شوہر، سسرال بچوں ہر ایک کی ضروریات کا خیال رکھا اپنی تمام ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے نبھائیں بیوی ہونے کے تمام فرائض پورے کیے
لیکن وہ احساسات جن پر اختیار نہ تھا کیا ان کی بھی گناہ گار میں ہوں ؟
کیا میں نے اچھی بیٹی اچھی بہو اچھی ماں اچھی بیوی۔ ۔ ۔ ۔ ہاں شاید اچھی بیوی بھی ہونے حق ادا نہی کیا؟ اپنے اندر کی اذیت سے ہراساں ہو کر وہ اکثر سوچتی
وقت زخموں کو بھر دیتا ہے،  وقت کے ساتھ ساتھ تکلیف کی شدت کم ہونے لگتی ہے، پھر محبت کا تو معاملہ ہی اور ہے کہ اسکا زخم اگر تکلیف دیتا بھی ہے تو ایک الگ ہی طرح کی لذت بھی دیتا ہے۔ ایسا نشہ کہ انسان اپنے زخموں کو خود ہی کریدتا رہتا کبھی تنہائی میں کبھی کسی کے سامنے
وقت ضرور زخموں کو بھر دیتا لیکن ایک دن وہ گھر میں معمول کے کاموں میں مصروف تھی ماں باپ کو اپنے گھر کی دہلیز پہ کھڑے دیکھا
بہت کم، ہاں بہت کم واسطہ رکھا تھا شادی کے بعد سے انہوں نے اپنی بیٹی سے
امی ابو آپ ٹھیک تو ہیں؟ ان کو بیٹھاتے ہی چہرے پر نمایاں ہوتی پریشانی بھانپتے ہوئے اس نے پوچھا
کبھی ماں کے روہانسے چہرے کو دیکھتی کبھی باپ کی جھکی نظروں کو
بیٹی تمہارا بھائی کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، ماں نے جھجکتے ہوے بتانا شروع کیا ہم کئی بار ان کے گھر گئے لیکن انہوں نے صاف منع کر دیا کہ وہ برادری سے باہر رشتہ نہی کرتے
"برادری سے باہر رشتہ"ماضی کا اک سایہ سا لپکا اس کے ذہن میں لیکن وہ ہمہ تن گوش سن رہی تھی
تمہارے بھائی نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفاظ ماں کی زبان کا ساتھ نہی دے رہے تھے
تمہارے بھائی نے چھپ کر شادی کر لی اس سے بیٹی، عثمانی صاحب نے بات مکمل کی
اب لڑکی والوں نے اغوا کا مقدمہ بنا دیا ہے
بیٹی وہ تمہاری کولیگ کے جاننے والے ہیں، تم ہی ان کو راضی کر سکتی ہو مقدمہ واپس لینے پر، تم ہی ہمارے خاندان کی عزت بچا سکتی ہو اس سے پہلے کہ بات باہر نکلے، تم ہی ہمارے خاندان کی ناک کٹنے سے بچا سکتی ہو، عثمانی صاحب کے لہجے مین التجا تھی
اس کے ذہن میں کوئی سوال نہیں تھا
اسے تو بس ایک بار پھر والدین کی عزت بچانی تھی

Monday 11 January 2016

ہائے ری میری جمہوریت

جمہوریت جنابِ والا جمہوریت، مستقبل اس ملک کا ہے تو صرف جمہوریت پر یہ جمہوریت ہے کیا بلا
خود اپنی بات کروں تو ناچیز کا دماغ جمہوریت کے معاملے میں 51 فیصد پر آ کے اٹک جاتا ہے، کچھ سادہ سے حساب کتاب ظاہر کرتے کے 8 کروڑ میں سے 4 کروڑ ووٹ اور 20 کروڑ میں سے 10 کروڑ لوگوں کی حمایت اکثریت یا جمہوریت کہلائی جائے گی پر ہر بات کی طرح یہاں بھی میرے وطن کے انداز نرالے، اس پر زیادہ بات کرنے سے چونکہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی تو بہتر خود اپنا منہ بند رکھ کہ علمائے جمہوریت سے مشورہ لیا جائے
تو کیا فرماتے دانشورانِ آزاد میڈیا و فیس بک و ٹویٹر بارے اس مسئلے کے؟
معلوم نہیں۔
خیر جمہوریت کے لیے مزید خطرہ بننے سے بہتر ہے جو بھی ہے، جیسی بھی ہے، " جہاں" بھی ہے (ہے بھی یا••••••) پر قناعت کیا جائے کہ اس سے بہتر جو آپشن مارکیٹ میں مل رہا اس سےہماری لنگڑی لولی دوشیزہ ہزار گنا بہتر ہے
لیکن یہ کیسی جمہوری دوشیزہ ہے جسے ہر وقت کوئی نا کوئی خطرہ لاحق رہتا ہے۔
کوئی نا کوئی "پلے بوائے" یا بوٹڈ بوٹڈ "کاؤ بوائے" ہمہ وقت چھیڑ خانی سے باز کیوں نہیں آتا

"چھیڑ خانوں" کو تو ہم ہر وقت روتے پیٹتے ہیں (اور تقریباً سچا روتے پیٹتے ہیں) پر کوئی تو غلطی اس دوشیزہ کی بھی ہو گی ہمارے سیاستدان کیوں خود اپنی اداؤں پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت کا راستہ عوامی satisfaction سے گزرتا ہے حضور والا آپ ڈلیور نہیں کریں گے تو عوام کسی اور سے امید تو لگائے گی نہ۔ اس کا حل آپ اور صرف آپ ہی کر سکتے ہیں تو کر گزریئے حضور۔ میٹرو بسیں سر آنکھوں پر، بلکل وقت کی ضرورت لیکن ان سے باہر بھی آئیے گراونڈ رئیلٹی کچھ اور بھی تقاضے کرتی ہے۔ تعلیم، صحت بہت سے مسائل، یقین مانیں کچھ بھی نہیں کیا آپ نے ابھی تک۔ سلامابادی دانشوروں اور ڈاکٹر رانجھوں والی نہریں مجھے نہیں پتا کہاں بہتی ہیں زمینی حقائق تو کچھ اور کہانی سناتے۔
۔ ۔ ۔ ہزاروں مسئلے ایسے کہ ہر مسئلے پر دم نکلے
چلیں "دشمنوں" کی بات چھوڑیں ایویں دوست ناراض ہوتے اپنی بات کرتے ہیں
محترم قبلہ عمران خان صاحب آپ کو تو معلوم ہی ہو گا ہم "پھر" ہار چکے ہیں تو سرکار اب دھاندلی کی سائیکل سے اتر آئیے نا، کچھ اور ٹرائے کرتے ہیں۔
حضرت آپ کو خود پر یقین ہو نا ہو پر آپ سے ہمیں اب بھی امید ہے۔ ہزار بونگیوں اور لاکھ اختلاف کے باوجود۔ وجہ سادہ سی ہے کہ آپ اقتدار میں آ سکیں یا نا پر آپکے ڈر سے گورنمنٹ کچھ نا کچھ کام تو کرتی ہے۔ آئی نو میرے پٹواری دوست اتنی سی گنجائش دینے کو بھی تیار نہیں۔
اور کچھ دوست جن کے "ہاسوں" کے بیک گراؤنڈ میں سے حسن نثار "چاتیاں" مار رہا ہوتا وہ بھی اس کو ہماری جہالت سمجھتے ہیں پر ابھی تک تو حالات یہی ہیں
تو قبلہ عمران خان صاحب صاف ستھری سیاست کا "ڈرامہ" چھوڑئیے اور مان لیجیے آپ اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، تنظیم سازی اور 2018 کے لیے ابھی سے امیدواروں کا انتخاب اور "خاموشی"، امید ہے نتائج مختلف ہوں گے، بس خاموش رہیے بولنے کو ہمارے تجزیہ نگار ہی بہت ہیں
بقول ایک دوست کے ہم 18 کروڑ تجزیہ نگار ہیں۔ ہر مرض کا شافی علاج پر بعض دفعہ ہم مرض بھی خود ہی پیدا کر لیتے ہیں آخر کچھ تو ہو جس سے گلشن کا کاروبار چلے، سب سے اچھی بات ہمارے تجزیہ نگاروں کی یہ کہ یا تو بلکل ساس ہوتے ہیں یا بلکل بہو، یعنی غلطی کی ذرہ گنجائش نہیں ہر دفعہ مکمل صحیح ہوتے ہیں
تو ان عالموں کو گلشن کا کاروبار چلانے دیتے باقی نواز عمران زرداری والا شغل میلا تو لگا رہنا۔ انجوائے کرتے ہیں، سیریس ہو کر اس جی کا جلانا کیا

Sunday 10 January 2016

یادیں ایک سنہرے دن کی

تکیہ تارڑ ہڑپہ
یقین مانیے کچھ عرصہ پہلے تک تکیہ تارڑ والے تکیہ سے بلکل نا آشنا تھا، پہلی دفعہ نام سنا تو کئی تصویریں اپنے ذہن میں بنا بنا کر دیکھیں ہر تصویر میں ایک عدد تکیہ ضرور ہوتا اور زیادہ تر میں تارڑ صاحب کو تکیے کے سہارے نیم دراز بھی دیکھا ایک آدھ دفعہ تو مریدین بھی نیم دائرے میں دو زانوں بیٹھے نظر آۓ ، اب احباب چاہیں تو دائرہ بیشک کھلا کر لیں اور مریدوں کی جگہ درباری بیٹھا لیں خیر بات بڑھنے سے بہتر ہے ہم واپس چلے آئیں
یاد نہیں کیسےتارڑ ریڈر ورلڈ جوائن کیا پر جوائن کیا تو دیکھا وہاں ایک جہاں آباد تھا چاہنے والوں کا(حوصلہ رکھیے میرے نہیں تارڑ صاحب کے چاہنے والوں کا)
روز کسی نا کسی دوست کی تارڑ صاحب کی محبت میں لکھی خوبصورت تحریر دیکھنے کو ملتی واہ واہ، بلے بلے، شاوا شاوا والی بھی اور وہ بھی جن پر کسی کا دھیان نا جاتا،
ایک عرصے بعد تارڑ صاحب کی تحریروں سے دوبار تعلق بحال ہوا
ریڈرورلڈ سے ہی چاچا جی کو صحیح معنوں میں جاننے کا موقع ملا اور پہلی دفعہ یہ خواب دیکھنے کا حوصلہ کہ چاچا جی کو ملا بھی جا سکتا ہے اور پھر وہ صبح بھی آئی جب یہ خواب پورا ہوا۔ خوشی کے وہ لمحے جو شاید ہمیشہ یاد رہیں گے۔ شکریہ تارڑ ریڈر ورلڈ شکریہ لبنیٰ طاہر صاحبہ
جانتا ہوں موضوع سے ہٹ گیا ہوں پر پہلی کوشش ہے امید ہے احباب در گزر فرمائیں گے
ریڈر ورلڈ سے ہی تکیہ تارڑ کا تعارف ہوا اور لفظ تکیہ سے آشنا ہوا کافی عرصہ تو بس تعارف ہی رہا اس آشنا سمیت فرار ہونے کا موقع نا ملا، کوشش کی ایک دو دفعہ لاہور پہنچنے کی پر آشنا میرے لیے نا آشنا ہی رہا
بس دوستوں کے خوبصورت تبصروں اور رپورٹوں پر ہی گذارا رہا اتنی خوبصورت شہد سی میٹھی تحریریں اتنی میٹھی کہ شوگر کا خطرہ لاحق رہا شاید ایک ایک لفظ کو کان سے پکڑ کر شیرے میں ڈبویا جاتا ہوگا
بعض دوستوں کی عقیدت دیکھ کر تو "رشک" آتا اکثر خیال گزرا کے تکیہ تارڑ میں احباب تارڑ صاحب کی کتابوں پر سبز کپڑا ڈال، کافور وغیرہ چھڑک کر اگربتیاں جلاتے ہیں کتابوں کو  دھونی دینے کے لیے، عقیدت کے واسطے
سردیوں کی چھٹیوں کے دن ہوں، دھیلے  کا کام نا ہو کرنے کو تو دیر تک سوئے رہنے اور دوپہر کو دھوپ میں تصور جاناں کیے ہوے لیٹے رہنے کا اپنا ہی مزا اور اسی چکر میں لیٹے لیٹے ایک دن تکیہ تارڑ ہڑپہ کی پوسٹ دیکھی۔پہلا ریکشن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ فیلنگ کیا ہے بس اوور ایکسائیٹڈ تھا۔ فوراً سے پہلے کمنٹ کیا اوکے ڈن اور علی عمر بھائی اور سمیرا آپا کو ان بکس کیا کہ گمان غالب تھا یہی لوگ کرتا دھرتا ہوں گے فورا اپنی خدمات پیش کیں
گروپ ڈسکشن میں پورا ہوٹل کھلا ہوا تھا مکئی کی روٹی اور ساگ ایک طرف تو قورمے بریانی دوسری طرف، حسبِ موقع رائے پیش کی۔ سمیرا آپا کی رائے تھی کہ کھانے سے زیادہ مقصد پر فوکس کیا جائے اور یہ نہایت مناسب بات تھی، آئندہ ہونے والے ایونٹس کے لیے بھی
اور پھر ایونٹ سے بلکل ایک دن پہلے ایکسائٹمنٹ کا بخار اترا تو میرے اندر کا پُت پینڈو جاگ گیا، بلکل اجنبی لوگوں سے ملنے کا حوصلہ نا تھا، یہ نہیں کہ پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں یا بہت شائے بندہ ہوں بس کچھ الگ سی فیلنگ تھی شائد خود بھی سمجھ نہیں پایا اور فیصلہ یہی تھا کہ میں نہیں جا رہا، بندہ ڈھیٹ ہو جاوے تو سو بہانے
ہر بندے کی زندگی میں کئی دفعہ یہ فیز آتا ہے جب وہ اپنی  ذہنی لائن بدلنے کا سوچتا یا شائد ذہنی معیار کو وسعت دینے کا، میرا بھی کچھ عرصے سے یہی فیز چل رہا۔ سیکھنے کے تو بہت رستے ہوتے پر میں نے کل "اہلِ کتاب" ہونا چُنا (فتوی نا لگائیے گا حضور) اور دل کو سمجھایا کہ بیٹا کچھ نہیں ہوتا تو چل اور کتاب والوں سے مل باقی دیکھی جاؤے گی
اس نشست کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے اعتراف کر لوں کہ مجھے تارڑ صاحب کی کوئی بھی کتاب مکمل پڑھے ہوے اندازً سات آٹھ سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور کبھی تارڑ صاحب کی کتاب خریدنے کا شرف حاصل نہیں ہوا کہ جب کتاب کا شوق تھا تب خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور اب خریدنے کی حیثیت ہے تو کتاب کا شوق نہیں رہا اس حساب سے میں آپ کے قبیلے کا فرد بلکل نہیں بنتا ایویں ثوبیہ آپا کے لائے ہوے کینو مفت میں اڑائے۔ ویسے میٹھے تھے آپا اللہ قبول فرمائے
پہلے سے طے شدہ جگہ پر وقت سے کچھ پہلے حاضر ہوا، احباب ذرا لیٹ تھے تو انتظار اور تنہائی کا توڑ پرانی یادوں اور واک سے کیا، کئی دفعہ دوستوں کے ساتھ آنے کا اتفاق ہوا تو کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں ہڑپہ میوزیم سے اب احباب تو سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئے بس یادیں باقی ہیں اور یہی دستور زندگی کا کہ لوگ آتے ہیں چلے جاتےہیں لیکن زندگی رواں رہتی ہے
بات ہو رہی تھی تکیہ تارڑ ہڑپہ کی، دوستوں کے انتظار میں تب تک میں 3،4 سو کلو میٹر واک کر چکا تھا کھنڈرات میں گھومتی زندہ اور مردہ روحوں،  ہزاروں سال پہلے دفنائی گئی، زندہ جاوید،  اور کھنڈرات میں اپنے بچوں کو گھیر گار کر ٹریک پر صراط مستقیم میں چلانے کی کوشش کرتی ہوئی ہمہ قسم کی "ممیوں" نے بھی مجھے نوٹس کر لیا تو تب تشریف لائیں ثوبیہ عثمان ہاتھ میں کتاب پکڑے ہوے جو پہچان کا ذریعہ بنی ویسے اُس دن پتا چلا کہ اب خواتین کے پرس بھی اس ڈیزائن کے پائے جاتے ہیں جو دور سے کتاب دکھائی دیتے خاص طور پر ان کو جو کسی کے ہاتھ میں کتاب دیکھنے کا شدت سے انتظار کر رہے ہوں، بعض دفعہ قریب جا کر بھی دیکھنے کی کوشش کی، خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ نظر ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ زیادہ قریب جا کر دیکھنے نوبت آتی اور کوئی ناخوشگوار صورتحال پیش آتی،  ویسے دیکھا بھی ہوتا تو آپ لوگوں کو تھوڑی بتاتا
ہاتھ میں عمیرہ احمد کا ناول پیر کامل پکڑے کراچی سے آئی ثوبیہ آپا کی آمد سے تسلی ہوئی کی احباب کی غیر حاضری سے تکیہ تارڑ کا انعقاد خطرے میں پڑا تو تکیہ عمیرہ سے گذارا کر لیں گے خالی ہاتھ تو گھر نا لوٹیں گے، ویسے مستورات میں عمیرہ کی مقبولیت سے لگتا ہے مستقبل قریب میں خوتین کالجز میں پیرِ کامل لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا، ثوبیہ عثمان کے ساتھ تشریف لائے تھے بہت ہی خوبصورت باتیں کرنے والے ان کے میاں عثمان ان کے بیٹے اور ان کی والدہ صاحبہ، پتا نہیں آپ احباب کی اس بارے کیا رائے ہے لیکن میرا ذاتی تجربہ کہ دنیا کی ساری مائیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں، میری ماں کے جیسی
باقی لوگوں کے انتظار میں ہم لوگوں نے کنٹین پر نشست جمائی اس دوران عثمان بھائی اور ثوبیہ آپا کے ساتھ تعارف بھی ہوا اور گپ شپ بھی، تعلیم، مذہب، معاشرتی رویوں اور کتاب بینی کے رجحان پر بہت سی باتیں ہوئیں اور علم میں اضافے کا باعث بنیں، کتاب سے تعلق پر بات کرتے ہوے ناچیز نے بھی بھرپور حصہ لیا اور معاشرے کو خوب کوسنے دئیے، مجال ہے جو ضمیر نے ذرا سی بھی چی چاں کی ہو کہ بیٹا خود تمھیں کتاب کو ہاتھ لگائے زمانہ بیت گیا آخری دفعہ کتاب کوئی تقریبا ایک دہائی "نصف جس کے مبلغ پانچ سال ہوتے ہیں" پہلے پڑھی تھی، خیر ضمیر صاحب کوئی احتجاج کرتے بھی تو اس پر لعنت بھیجنے میں دیر نا کرتا کہ یہ واحد کام ہے جس میں صرف میں ہی نہیں ہم من حیث القوم بھی ایکسپرٹ ہیں۔
جلد ہی باقی احباب بھی تشریف لے آۓ، تارڑ صاحب کے بہت زیادہ مداح چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے رکھنے والے علی عمر بھائی، تارڑ ریڈر ورلڈ کی جانب سے بھیجا جانے والا مگ ان سے ملاقات کا بہانہ بنا تھا تب سے تعارف ہے ان سے، خوبصورت مسکراہٹ والی سارہ آپا ان کے ہمراہ ان کے میاں خاموش طبعیت علی بھائی اور گمان غالب ہے سارہ آپا کے ہوتے ان کو بولنے کا موقع بھی کم ہی ملتا ہو گا۔ ساتھ ان کا بہت پیارا سا بیٹا جس نے اماں کی تارڑی مصروفیت کی وجہ سے ملی آزادی کو خوب اچھے سے استعمال کیا اور خوب انجواے کیا
اور سمیراانجم صاحبہ، یقین بمشکل آتا ہے کہ بچوں کا سا معصومانہ انداز رکھنے والی یہ محترمہ تارڑ ریڈر ورلڈ کی وہ ساری ذمہ داریاں نبھاتی ہیں جن کا اکثر چرچا رہتا، یقیناً کوئی جن وغیرہ قابو کیے ہوں گے، اور ان کے ساتھ تھے سمیرا آپا کی طرف سے زبردستی مشرف با تارڑ کیے ہوے ان کے بھائی فیصل، فیصل بھائی سے بہت اچھی گپ شپ رہی امید ہے ملاقات ہوتی رہے گی
سب کے اکٹھے ہونے پر چائے اور گپ شپ کا دور چلا تفصیلی تعارف ہوا مصروفیتوں کے احوال پوچھے گئے اور اپنے اپنے بچوں کا آپس میں تعارف کروانے کے ناکام جتن کیے گئے پر بچے من کے سچے۔ چائے کے بعد فیصلہ ہوا منزل پر پہنچنے کا، بیچ کھنڈرات پڑاو ڈالنے کا ارادہ کیے کارواں روانہ ہوا تو ہڑپہ والوں کی منڈی پر قبضہ کر کے دم لیا، یقینا روحوں نے احتجاج کیا ہو گا کہ حضرات انسان بنو امریکہ نا بنو، اس دوران میں اور عثمان بھائی گاڑی میں سے چٹائی اور کینو بلکہ اپنے باغات کے کینو وغیرہ نکالنے گئے تو حضراتِ گرامی یقین مانیے گاڑی میں پڑے تھے بوری بھر کینو
ویسے کراچی والو "بوری" سے اتنی محبت کی کوئی خاص وجہ؟؟؟؟
بوری اٹھانے سے موقعے پر موجود ہر دو اشخاص نے فورا انکار کر دیا تو ترکیب نکالی گئی کہ شاپر میں کچھ کینو برامد کر لیے جائیں اور اس طرح ہم سامان اٹھا کر متعلقہ جگہ پر پہنچے، کسی زمانے میں اجناس کے گودام یا منڈی کے کھنڈرات  کے پاس مناسب جگہ دیکھ کر تکیہ تارڑ کی محفل سجائی گئی، ہڑپہ اور موہنجودڑو کے شہروں کے کھنڈرات تارڑ صاحب کا پسندیدہ موضوع ہے ایسی ہی جگہ کے بیچ موجود ہونا اور ایک الگ ہی احساس تھا
چشم تصور سے غلے کے گواموں میں کام کرتے مزدوروں کے قدموں کی چاپ بھی محسوس کی جاسکتی تھی گہرے گندمی رنگ کے جسموں والے لوگ کبھی وہاں اپنی دوکان سجاتے ہوں گے اناج کے ایک ڈھیر کے بدلے پتھر کے تراشے ہوے کلہاڑے کا سودا کر کے کسی ورچن نے خوشی محسوس کی ہو گی کی اس کلہاڑی سے شکار کر کے وہ آج اپنے جھونپڑے میں ماس لے کر جائے گا۔ یا شاید اس کلہاڑی سے وہ اپنے اس بیل کو درندے سے بچائے گا جس بیل کی مدد سے زمین خودنے کا فن اس نے ابھی سیکھا ہی تھا۔ وہاں بنے گول چبوترں پر بیٹھ کر اناج صاف کرنے والی کسی پاروشنی کی روح کو آج میرا وہاں بیٹھنا برا تو لگا ہو گا اور شاید کچھ صدیوں کے بعد میری روح کو وہاں کسی کا بیٹھنا برا لگے گا
خیر واپس آج میں آتے ہیں کہ ابھی کچھ صدیاں میرا تو مرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے تو تکیہ تارڑ کا باقاعدہ آغاز سمیرا انجم نے کیا، تکیہ تارڑ کا تعارف اور اس کا مقصد بیان کیا پھر تارڑ صاحب کے ناول بہاو سے اقتباس پڑھا، بہاو کا بیک گراؤنڈ بھی خشک ہوتے ہوے دریا سے جڑی تہذیب کے معدوم ہونے کا المیہ ہی ہے ہڑپہ کے تناظر میں بہترین تحریر یہ اس لیے ہے کہ جس جگہ ہم بیٹھے ہوے تھے یہ بھی کبھی لبِ دریا تھی پھر بے رحم دریا نے اپنا منہ موڑا تو ہڑپہ کے وجود میں سے بھی جان نکلتی گئی اور پیچھے بچا وہ جو آج ہمارے سامنے تھا۔ بیشک تب راوی نے صرف رستہ بدلا تھا اور اس کے صدیوں بعد بھی راوی اسی شان سے بہتا رہا پر آج خود اس کا اپنا وجود بھی سیاسی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہونے کے قریب کسی اور تارڑ کا منتظر جو اس کی کہانی کہے۔
اس اقتباس پر ہر کسی نے اپنی اپنی رائے اور اس خوبصورت تحریر کے ماحول سے مطابقت پر سمیرا انجم کو داد دی
سارہ نے ڈاکیا اور جولاہا سے اقتباس پڑھا ناچیز اس دوران کینو کھانے اور اپنا "سبق" جو کچھ ہی دیر بعد سنانا تھا یاد کرنے میں اتنا مدہوش تھا کہ خبر نا ہوئی ، گستاخی معاف، لیکن حاضرین کی واہ واہ ظاہر کرتی تھی کہ یقینا کوئی عمدہ چیز پڑھی گئی ہے
ثوبیہ عثمان نے اندلس میں اجنبی سے اقتباس پڑھا، اندلس ہمیشہ سے میرے دل کے تار چھیڑتا رہا ہے اور تارڑ صاحب سے میرا پہلا تعارف بھی اندلس ہی ہے اس لیے اس تحریر نے دوبارہ سے مجھے میرے پیار کے پہلے دنوں سے روشناس کرایا، سب نے اس تحریر پر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور حسب ذوق اندلس کی تاریخ کا تیا پانچا ایک کیا
درمیان درمیان میں کھانے پینے کا دور بھی چلتا رہا اور تارڑ صاحب کی تحریروں کے ماحول میں ڈوبی مکمل تارڑ ہوئی مائیں اچانک کچھ یاد آنے پر چونک چونک کر بچوں کو پکارتی بھی نظر آئیں، تارڑ سے ماں اور ماں ہونے کا سفر اس تیزی سے طے کیا جاتا کہ کندھوں پر بیٹھے فرشتے بھی مسکراتے ہوں گے، یہ شاید اس دن کے سب سے خوبصورت لمحے تھے
فیصل بھائی نے جپسی میں سے خوبصورت اقتباس پڑھا، جپسی تارڑ صاحب کے بیان کیے بہت سے کرداروں کی طرح ایک لاجواب کردار ہے مجھے ذاتی طور پر بھی تارڑ صاحب کے بیان کیے گئے زنانہ کرداروں میں جپسی اور ناژلا سعد سب سے زیادہ پسند ہیں اور مردانہ کرداروں کو تارڑ صاحب ویسے بھی گھاس نہیں ڈالتے
میں نے بھی اندلس میں اجنبی میں سے الحمرا میں گزاری رات کے بارے کچھ پڑھنے کی جسارت کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ آئندہ پڑھنا ہو تو تیاری بحرحال پہلے سے کر لینی چاہیے
آخر میں تارڑ صاحب اور خود اپنی تحریر سے حد درجہ محبت کرنے والے علی عمر نےسنہری الو کے شہر میں سے پڑھا اور میلا لوٹ لیا، جتنی علی عمر کی تحریر جاندار ہوتی ہے ویسا ہی ان کا پڑھنے کا انداز خوبصورت، تارڑ صاحب کی تحریر اور علی عمر کے انداز نے ہمیں بھی دلی کی گلیوں میں لیجا کھڑا کیا
اس دوران عثمان صاحب فون پر ہی ہڑپہ کے کھنڈرات میں اپنا ورچوئل آفس سجائے روحوں کو پریشان کرتے رہے کی یہ کون ہے جو خود سے ہی باتیں کیے جاتا، کسی چالاک روح نے دوسری کو بتایا ہو گا کہ یہ کوئی پہنچے ہوئے بابا ہیں جو کان سے کوئی چیز لگائے ہمیں قابو کرنے کا منتر پڑھے جاتے ہیں، کچھ روحیں تو قابو ہونے پر بضد تھیں پر عثمان بھائی نے معاف کیے رکھا، یہ بھی ہو سکتا کہ وہ باقیوں سے زیادہ پرانے ہڑپہ کے دور میں پہنچ چکے ہوں اور منڈی میں کھڑے ہو کر ہڑپہ کی گندم کے موہنجودڑو اور ٹیکسلا میں سودے کر رہے ہوں، اللہ ہی جانے
تکیہ تارڑ کے کامیاب انعقاد پر سمیرا انجم نے کچھ عربیانہ مراکشنہ ٹائپ کی مٹھائی سے منہ میٹھا کروایا اور اب وقت تھا کوچ کر جانے کا ، واپسی پر سنت تارڑ زندہ کرتے ہوے ٹریکنگ کا شوق پورا کیا گیا اور اور ہڑپہ کے ٹیلوں پر چڑھائی کی گئی۔ اوپر سے نیچے کا نظارہ واقعی شاندار نظر آتا ہے
توازن قائم رکھنے کی بھرپور ذہنی کشمکش میں گزرا ایک خوبصورت سنہرا دن
اس ہمیشہ یاد رہنے والے دن اور کتاب سے دوبارہ جوڑ دینے کے لیے شکریہ متاثرین تارڑ، آباد رہیے