Friday 9 December 2016

لوگو! میں بیمار ہوں

اداب
تحریر کے شروع میں رائج زمانی روایات کے عین مطابق ہم ایک وارننگ جاری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ کرداروں میں کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ روز ایک دوست نے فیس بک کا استعمال کرتے ہوے اپنی دیوار پر کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہونے کا اعلان تحریر فرمایا اور احباب سے ضروری طبی مشورہ طلب کیا اور بیماری کے رد کے لیے مناسب امکانات پر بحث مباحثہ کی درخواست کی

بیماری کی تفصیل ہم جانا نہیں چاہتے,  سچ کہوں تو ہم جا ہی نہی سکتے کہ فرنگی زبان میں لکھے کچھ ناشناسا لفظوں کے مطلب سے نابلد ہیں
دوست کا تعلق چونکہ اس صنف سے ہے جن کو برابری کے حقوق بھی چاہیے ہیں اور تندور پر روٹیاں بھی باقیوں سے پہلے لینی ہیں کہ لیڈیز فرسٹ
جنہیں گھر میں برابر کا درجہ تو چاہیے ہے لیکن آٹا پِسوانے کبھی نا جائیں گی
جنہیں بس میں میری ہی خالی کی ہوئی سیٹ پر بیٹھ کر مجھے ہی خطبہ دینا ہے,,

ہاں وہی گاڑی کے دو پہیوں والا

بہرحال چونکہ صنف نازک کے معاملہ میں من حیث القوم جذباتی ہیں تو محض چند ہی لمحوں میں دوستوں نے اپنے گراں قدر مشوروں,  ٹوٹکوں دعاوں سے اتھل پتھل مچا دی
کچھ احباب نے تو اتنے دکھی دلوں سے اتنا رو رو کر دعائیں مانگی کہ ان کی فیس بکی دیوار پر دیوار گریہ ہونے کا گمان گزرا
آنسوؤں کو  لڑیاں رواں تھیں,  امکان تھا کہ کچھ دیر یونہی پوسٹ کو تکتے رہے تو موبائل سے پانی جاری ہوجاتا

کچھ ہی دیر میں رش اتنا بڑھا کہ لوگوں کو قطار میں لگ کر باری کا انتظار کر کے اپنے مشورے اور پیغامات پہنچائے
مقامی جڑی بوٹیوں کے ایسے ایسے مرکبات شرطیہ علاج کے دعوں کے ساتھ پیش کیے گئے کہ جالینوس کی روح تڑپ اٹھی

ایسی ایسی دعائیں سامنے آئیں کہ مقامی پیش اماموں کو اپنی روزی کی فکر لاحق ہوگئی
ٹوٹکوں کے معیار اس انتہا تک جا پہنچے کہ زبیدہ آپا کو فوراً ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا پڑا

ملکی ڈاکٹروں نے ہنگامی اجلاس منعقد کیے
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے اعزازی ڈگریاں جاری کرنے کا اعلان کیا
ہنگامہ خیزی کے اس دور میں خاکسار نے بھی مقامی لاریوں میں بار ہا سفر کے دوران نابغہ روزگار حکیموں اور سنیاسیوں کے عالمانہ خطبوں سے کشید کردا علم کو تازہ کیا
ذہن میں کچھ مجعونون,  مربہ جات,  خمیرا گاؤ زبان اور اطریفل استوخردوس نامی دواؤں کو لیے میدان میں میں آن ٹپکا لیکن مقابلہ بہرحال سخت تھا
بات دور نکل گئی امید کامل ہے کہ وہ صحت یاب ہوچکی ہوں گی
نہ بھی ہوئی ہوں تو جتنے مشورے,  ٹوٹکے دعائیں دوائیں ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کے جم غفیر کی طرف سے موصول ہوچکی ہیں بندہ اخلاقاً ہی اپنے صحت یاب ہونے کا اعلان کر چکتا
اب آپ یہ اندازہ نا لگائیے گا کہ میں کوئی مردانہ حقوق کا علمبردار جذباتی وکیل ہوں جو "حقوقِ صنفِ کرخت" نامی این جی او چلاتا ہوں
میں تو وہ مظلوم ہوں جو پچھلے تین دن سے نزلہ زکام کھانسی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوں اور کسی نے جھوٹے منہ بھی نہی پوچھا "ہاں بھئی کاکا کِداں؟؟؟؟  کی حال آ تیرا"
بس دنیا کی بے ثباتی پر,  خواتین کی بے حسابی پر,  نیلی آنکھوں کی کمیابی پر نوحہ خواں ہوں

قیامت

خیال خود تک ہی رکھے ہیں میں نے سارے

کبھی لفظ کاغذ پہ  اتاروں تو قیامت آئے

تیر اس کے بھی حصے کے مجھ پر ہی برسے

کبھی میں جو نا سہاروں تو  قیامت آئے

وہم, کہ ہنگامے ہیں سارے میرے ہی دم سے

رات مٹی میں جو گزاروں تو  قیامت آئے

میرے اندر کے سناٹے مجھے سونے نہیں دیتے

خود کو اب میں جو پکاروں تو قیامت آئے

مجھ میں اس شدت سے پیوست ہیں باتیں اسکی
اس کی یادیں جو نتھاروں تو قیامت  آئے