خیال خود تک ہی رکھے ہیں میں نے سارے
کبھی لفظ کاغذ پہ اتاروں تو قیامت آئے
تیر اس کے بھی حصے کے مجھ پر ہی برسے
کبھی میں جو نا سہاروں تو قیامت آئے
وہم, کہ ہنگامے ہیں سارے میرے ہی دم سے
رات مٹی میں جو گزاروں تو قیامت آئے
میرے اندر کے سناٹے مجھے سونے نہیں دیتے
خود کو اب میں جو پکاروں تو قیامت آئے
مجھ میں اس شدت سے پیوست ہیں باتیں اسکی
اس کی یادیں جو نتھاروں تو قیامت آئے
No comments:
Post a Comment