Friday 9 December 2016

قیامت

خیال خود تک ہی رکھے ہیں میں نے سارے

کبھی لفظ کاغذ پہ  اتاروں تو قیامت آئے

تیر اس کے بھی حصے کے مجھ پر ہی برسے

کبھی میں جو نا سہاروں تو  قیامت آئے

وہم, کہ ہنگامے ہیں سارے میرے ہی دم سے

رات مٹی میں جو گزاروں تو  قیامت آئے

میرے اندر کے سناٹے مجھے سونے نہیں دیتے

خود کو اب میں جو پکاروں تو قیامت آئے

مجھ میں اس شدت سے پیوست ہیں باتیں اسکی
اس کی یادیں جو نتھاروں تو قیامت  آئے

No comments:

Post a Comment