Sunday 10 January 2016

یادیں ایک سنہرے دن کی

تکیہ تارڑ ہڑپہ
یقین مانیے کچھ عرصہ پہلے تک تکیہ تارڑ والے تکیہ سے بلکل نا آشنا تھا، پہلی دفعہ نام سنا تو کئی تصویریں اپنے ذہن میں بنا بنا کر دیکھیں ہر تصویر میں ایک عدد تکیہ ضرور ہوتا اور زیادہ تر میں تارڑ صاحب کو تکیے کے سہارے نیم دراز بھی دیکھا ایک آدھ دفعہ تو مریدین بھی نیم دائرے میں دو زانوں بیٹھے نظر آۓ ، اب احباب چاہیں تو دائرہ بیشک کھلا کر لیں اور مریدوں کی جگہ درباری بیٹھا لیں خیر بات بڑھنے سے بہتر ہے ہم واپس چلے آئیں
یاد نہیں کیسےتارڑ ریڈر ورلڈ جوائن کیا پر جوائن کیا تو دیکھا وہاں ایک جہاں آباد تھا چاہنے والوں کا(حوصلہ رکھیے میرے نہیں تارڑ صاحب کے چاہنے والوں کا)
روز کسی نا کسی دوست کی تارڑ صاحب کی محبت میں لکھی خوبصورت تحریر دیکھنے کو ملتی واہ واہ، بلے بلے، شاوا شاوا والی بھی اور وہ بھی جن پر کسی کا دھیان نا جاتا،
ایک عرصے بعد تارڑ صاحب کی تحریروں سے دوبار تعلق بحال ہوا
ریڈرورلڈ سے ہی چاچا جی کو صحیح معنوں میں جاننے کا موقع ملا اور پہلی دفعہ یہ خواب دیکھنے کا حوصلہ کہ چاچا جی کو ملا بھی جا سکتا ہے اور پھر وہ صبح بھی آئی جب یہ خواب پورا ہوا۔ خوشی کے وہ لمحے جو شاید ہمیشہ یاد رہیں گے۔ شکریہ تارڑ ریڈر ورلڈ شکریہ لبنیٰ طاہر صاحبہ
جانتا ہوں موضوع سے ہٹ گیا ہوں پر پہلی کوشش ہے امید ہے احباب در گزر فرمائیں گے
ریڈر ورلڈ سے ہی تکیہ تارڑ کا تعارف ہوا اور لفظ تکیہ سے آشنا ہوا کافی عرصہ تو بس تعارف ہی رہا اس آشنا سمیت فرار ہونے کا موقع نا ملا، کوشش کی ایک دو دفعہ لاہور پہنچنے کی پر آشنا میرے لیے نا آشنا ہی رہا
بس دوستوں کے خوبصورت تبصروں اور رپورٹوں پر ہی گذارا رہا اتنی خوبصورت شہد سی میٹھی تحریریں اتنی میٹھی کہ شوگر کا خطرہ لاحق رہا شاید ایک ایک لفظ کو کان سے پکڑ کر شیرے میں ڈبویا جاتا ہوگا
بعض دوستوں کی عقیدت دیکھ کر تو "رشک" آتا اکثر خیال گزرا کے تکیہ تارڑ میں احباب تارڑ صاحب کی کتابوں پر سبز کپڑا ڈال، کافور وغیرہ چھڑک کر اگربتیاں جلاتے ہیں کتابوں کو  دھونی دینے کے لیے، عقیدت کے واسطے
سردیوں کی چھٹیوں کے دن ہوں، دھیلے  کا کام نا ہو کرنے کو تو دیر تک سوئے رہنے اور دوپہر کو دھوپ میں تصور جاناں کیے ہوے لیٹے رہنے کا اپنا ہی مزا اور اسی چکر میں لیٹے لیٹے ایک دن تکیہ تارڑ ہڑپہ کی پوسٹ دیکھی۔پہلا ریکشن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ فیلنگ کیا ہے بس اوور ایکسائیٹڈ تھا۔ فوراً سے پہلے کمنٹ کیا اوکے ڈن اور علی عمر بھائی اور سمیرا آپا کو ان بکس کیا کہ گمان غالب تھا یہی لوگ کرتا دھرتا ہوں گے فورا اپنی خدمات پیش کیں
گروپ ڈسکشن میں پورا ہوٹل کھلا ہوا تھا مکئی کی روٹی اور ساگ ایک طرف تو قورمے بریانی دوسری طرف، حسبِ موقع رائے پیش کی۔ سمیرا آپا کی رائے تھی کہ کھانے سے زیادہ مقصد پر فوکس کیا جائے اور یہ نہایت مناسب بات تھی، آئندہ ہونے والے ایونٹس کے لیے بھی
اور پھر ایونٹ سے بلکل ایک دن پہلے ایکسائٹمنٹ کا بخار اترا تو میرے اندر کا پُت پینڈو جاگ گیا، بلکل اجنبی لوگوں سے ملنے کا حوصلہ نا تھا، یہ نہیں کہ پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں یا بہت شائے بندہ ہوں بس کچھ الگ سی فیلنگ تھی شائد خود بھی سمجھ نہیں پایا اور فیصلہ یہی تھا کہ میں نہیں جا رہا، بندہ ڈھیٹ ہو جاوے تو سو بہانے
ہر بندے کی زندگی میں کئی دفعہ یہ فیز آتا ہے جب وہ اپنی  ذہنی لائن بدلنے کا سوچتا یا شائد ذہنی معیار کو وسعت دینے کا، میرا بھی کچھ عرصے سے یہی فیز چل رہا۔ سیکھنے کے تو بہت رستے ہوتے پر میں نے کل "اہلِ کتاب" ہونا چُنا (فتوی نا لگائیے گا حضور) اور دل کو سمجھایا کہ بیٹا کچھ نہیں ہوتا تو چل اور کتاب والوں سے مل باقی دیکھی جاؤے گی
اس نشست کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے اعتراف کر لوں کہ مجھے تارڑ صاحب کی کوئی بھی کتاب مکمل پڑھے ہوے اندازً سات آٹھ سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور کبھی تارڑ صاحب کی کتاب خریدنے کا شرف حاصل نہیں ہوا کہ جب کتاب کا شوق تھا تب خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور اب خریدنے کی حیثیت ہے تو کتاب کا شوق نہیں رہا اس حساب سے میں آپ کے قبیلے کا فرد بلکل نہیں بنتا ایویں ثوبیہ آپا کے لائے ہوے کینو مفت میں اڑائے۔ ویسے میٹھے تھے آپا اللہ قبول فرمائے
پہلے سے طے شدہ جگہ پر وقت سے کچھ پہلے حاضر ہوا، احباب ذرا لیٹ تھے تو انتظار اور تنہائی کا توڑ پرانی یادوں اور واک سے کیا، کئی دفعہ دوستوں کے ساتھ آنے کا اتفاق ہوا تو کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں ہڑپہ میوزیم سے اب احباب تو سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئے بس یادیں باقی ہیں اور یہی دستور زندگی کا کہ لوگ آتے ہیں چلے جاتےہیں لیکن زندگی رواں رہتی ہے
بات ہو رہی تھی تکیہ تارڑ ہڑپہ کی، دوستوں کے انتظار میں تب تک میں 3،4 سو کلو میٹر واک کر چکا تھا کھنڈرات میں گھومتی زندہ اور مردہ روحوں،  ہزاروں سال پہلے دفنائی گئی، زندہ جاوید،  اور کھنڈرات میں اپنے بچوں کو گھیر گار کر ٹریک پر صراط مستقیم میں چلانے کی کوشش کرتی ہوئی ہمہ قسم کی "ممیوں" نے بھی مجھے نوٹس کر لیا تو تب تشریف لائیں ثوبیہ عثمان ہاتھ میں کتاب پکڑے ہوے جو پہچان کا ذریعہ بنی ویسے اُس دن پتا چلا کہ اب خواتین کے پرس بھی اس ڈیزائن کے پائے جاتے ہیں جو دور سے کتاب دکھائی دیتے خاص طور پر ان کو جو کسی کے ہاتھ میں کتاب دیکھنے کا شدت سے انتظار کر رہے ہوں، بعض دفعہ قریب جا کر بھی دیکھنے کی کوشش کی، خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ نظر ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ زیادہ قریب جا کر دیکھنے نوبت آتی اور کوئی ناخوشگوار صورتحال پیش آتی،  ویسے دیکھا بھی ہوتا تو آپ لوگوں کو تھوڑی بتاتا
ہاتھ میں عمیرہ احمد کا ناول پیر کامل پکڑے کراچی سے آئی ثوبیہ آپا کی آمد سے تسلی ہوئی کی احباب کی غیر حاضری سے تکیہ تارڑ کا انعقاد خطرے میں پڑا تو تکیہ عمیرہ سے گذارا کر لیں گے خالی ہاتھ تو گھر نا لوٹیں گے، ویسے مستورات میں عمیرہ کی مقبولیت سے لگتا ہے مستقبل قریب میں خوتین کالجز میں پیرِ کامل لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا، ثوبیہ عثمان کے ساتھ تشریف لائے تھے بہت ہی خوبصورت باتیں کرنے والے ان کے میاں عثمان ان کے بیٹے اور ان کی والدہ صاحبہ، پتا نہیں آپ احباب کی اس بارے کیا رائے ہے لیکن میرا ذاتی تجربہ کہ دنیا کی ساری مائیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں، میری ماں کے جیسی
باقی لوگوں کے انتظار میں ہم لوگوں نے کنٹین پر نشست جمائی اس دوران عثمان بھائی اور ثوبیہ آپا کے ساتھ تعارف بھی ہوا اور گپ شپ بھی، تعلیم، مذہب، معاشرتی رویوں اور کتاب بینی کے رجحان پر بہت سی باتیں ہوئیں اور علم میں اضافے کا باعث بنیں، کتاب سے تعلق پر بات کرتے ہوے ناچیز نے بھی بھرپور حصہ لیا اور معاشرے کو خوب کوسنے دئیے، مجال ہے جو ضمیر نے ذرا سی بھی چی چاں کی ہو کہ بیٹا خود تمھیں کتاب کو ہاتھ لگائے زمانہ بیت گیا آخری دفعہ کتاب کوئی تقریبا ایک دہائی "نصف جس کے مبلغ پانچ سال ہوتے ہیں" پہلے پڑھی تھی، خیر ضمیر صاحب کوئی احتجاج کرتے بھی تو اس پر لعنت بھیجنے میں دیر نا کرتا کہ یہ واحد کام ہے جس میں صرف میں ہی نہیں ہم من حیث القوم بھی ایکسپرٹ ہیں۔
جلد ہی باقی احباب بھی تشریف لے آۓ، تارڑ صاحب کے بہت زیادہ مداح چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے رکھنے والے علی عمر بھائی، تارڑ ریڈر ورلڈ کی جانب سے بھیجا جانے والا مگ ان سے ملاقات کا بہانہ بنا تھا تب سے تعارف ہے ان سے، خوبصورت مسکراہٹ والی سارہ آپا ان کے ہمراہ ان کے میاں خاموش طبعیت علی بھائی اور گمان غالب ہے سارہ آپا کے ہوتے ان کو بولنے کا موقع بھی کم ہی ملتا ہو گا۔ ساتھ ان کا بہت پیارا سا بیٹا جس نے اماں کی تارڑی مصروفیت کی وجہ سے ملی آزادی کو خوب اچھے سے استعمال کیا اور خوب انجواے کیا
اور سمیراانجم صاحبہ، یقین بمشکل آتا ہے کہ بچوں کا سا معصومانہ انداز رکھنے والی یہ محترمہ تارڑ ریڈر ورلڈ کی وہ ساری ذمہ داریاں نبھاتی ہیں جن کا اکثر چرچا رہتا، یقیناً کوئی جن وغیرہ قابو کیے ہوں گے، اور ان کے ساتھ تھے سمیرا آپا کی طرف سے زبردستی مشرف با تارڑ کیے ہوے ان کے بھائی فیصل، فیصل بھائی سے بہت اچھی گپ شپ رہی امید ہے ملاقات ہوتی رہے گی
سب کے اکٹھے ہونے پر چائے اور گپ شپ کا دور چلا تفصیلی تعارف ہوا مصروفیتوں کے احوال پوچھے گئے اور اپنے اپنے بچوں کا آپس میں تعارف کروانے کے ناکام جتن کیے گئے پر بچے من کے سچے۔ چائے کے بعد فیصلہ ہوا منزل پر پہنچنے کا، بیچ کھنڈرات پڑاو ڈالنے کا ارادہ کیے کارواں روانہ ہوا تو ہڑپہ والوں کی منڈی پر قبضہ کر کے دم لیا، یقینا روحوں نے احتجاج کیا ہو گا کہ حضرات انسان بنو امریکہ نا بنو، اس دوران میں اور عثمان بھائی گاڑی میں سے چٹائی اور کینو بلکہ اپنے باغات کے کینو وغیرہ نکالنے گئے تو حضراتِ گرامی یقین مانیے گاڑی میں پڑے تھے بوری بھر کینو
ویسے کراچی والو "بوری" سے اتنی محبت کی کوئی خاص وجہ؟؟؟؟
بوری اٹھانے سے موقعے پر موجود ہر دو اشخاص نے فورا انکار کر دیا تو ترکیب نکالی گئی کہ شاپر میں کچھ کینو برامد کر لیے جائیں اور اس طرح ہم سامان اٹھا کر متعلقہ جگہ پر پہنچے، کسی زمانے میں اجناس کے گودام یا منڈی کے کھنڈرات  کے پاس مناسب جگہ دیکھ کر تکیہ تارڑ کی محفل سجائی گئی، ہڑپہ اور موہنجودڑو کے شہروں کے کھنڈرات تارڑ صاحب کا پسندیدہ موضوع ہے ایسی ہی جگہ کے بیچ موجود ہونا اور ایک الگ ہی احساس تھا
چشم تصور سے غلے کے گواموں میں کام کرتے مزدوروں کے قدموں کی چاپ بھی محسوس کی جاسکتی تھی گہرے گندمی رنگ کے جسموں والے لوگ کبھی وہاں اپنی دوکان سجاتے ہوں گے اناج کے ایک ڈھیر کے بدلے پتھر کے تراشے ہوے کلہاڑے کا سودا کر کے کسی ورچن نے خوشی محسوس کی ہو گی کی اس کلہاڑی سے شکار کر کے وہ آج اپنے جھونپڑے میں ماس لے کر جائے گا۔ یا شاید اس کلہاڑی سے وہ اپنے اس بیل کو درندے سے بچائے گا جس بیل کی مدد سے زمین خودنے کا فن اس نے ابھی سیکھا ہی تھا۔ وہاں بنے گول چبوترں پر بیٹھ کر اناج صاف کرنے والی کسی پاروشنی کی روح کو آج میرا وہاں بیٹھنا برا تو لگا ہو گا اور شاید کچھ صدیوں کے بعد میری روح کو وہاں کسی کا بیٹھنا برا لگے گا
خیر واپس آج میں آتے ہیں کہ ابھی کچھ صدیاں میرا تو مرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے تو تکیہ تارڑ کا باقاعدہ آغاز سمیرا انجم نے کیا، تکیہ تارڑ کا تعارف اور اس کا مقصد بیان کیا پھر تارڑ صاحب کے ناول بہاو سے اقتباس پڑھا، بہاو کا بیک گراؤنڈ بھی خشک ہوتے ہوے دریا سے جڑی تہذیب کے معدوم ہونے کا المیہ ہی ہے ہڑپہ کے تناظر میں بہترین تحریر یہ اس لیے ہے کہ جس جگہ ہم بیٹھے ہوے تھے یہ بھی کبھی لبِ دریا تھی پھر بے رحم دریا نے اپنا منہ موڑا تو ہڑپہ کے وجود میں سے بھی جان نکلتی گئی اور پیچھے بچا وہ جو آج ہمارے سامنے تھا۔ بیشک تب راوی نے صرف رستہ بدلا تھا اور اس کے صدیوں بعد بھی راوی اسی شان سے بہتا رہا پر آج خود اس کا اپنا وجود بھی سیاسی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہونے کے قریب کسی اور تارڑ کا منتظر جو اس کی کہانی کہے۔
اس اقتباس پر ہر کسی نے اپنی اپنی رائے اور اس خوبصورت تحریر کے ماحول سے مطابقت پر سمیرا انجم کو داد دی
سارہ نے ڈاکیا اور جولاہا سے اقتباس پڑھا ناچیز اس دوران کینو کھانے اور اپنا "سبق" جو کچھ ہی دیر بعد سنانا تھا یاد کرنے میں اتنا مدہوش تھا کہ خبر نا ہوئی ، گستاخی معاف، لیکن حاضرین کی واہ واہ ظاہر کرتی تھی کہ یقینا کوئی عمدہ چیز پڑھی گئی ہے
ثوبیہ عثمان نے اندلس میں اجنبی سے اقتباس پڑھا، اندلس ہمیشہ سے میرے دل کے تار چھیڑتا رہا ہے اور تارڑ صاحب سے میرا پہلا تعارف بھی اندلس ہی ہے اس لیے اس تحریر نے دوبارہ سے مجھے میرے پیار کے پہلے دنوں سے روشناس کرایا، سب نے اس تحریر پر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور حسب ذوق اندلس کی تاریخ کا تیا پانچا ایک کیا
درمیان درمیان میں کھانے پینے کا دور بھی چلتا رہا اور تارڑ صاحب کی تحریروں کے ماحول میں ڈوبی مکمل تارڑ ہوئی مائیں اچانک کچھ یاد آنے پر چونک چونک کر بچوں کو پکارتی بھی نظر آئیں، تارڑ سے ماں اور ماں ہونے کا سفر اس تیزی سے طے کیا جاتا کہ کندھوں پر بیٹھے فرشتے بھی مسکراتے ہوں گے، یہ شاید اس دن کے سب سے خوبصورت لمحے تھے
فیصل بھائی نے جپسی میں سے خوبصورت اقتباس پڑھا، جپسی تارڑ صاحب کے بیان کیے بہت سے کرداروں کی طرح ایک لاجواب کردار ہے مجھے ذاتی طور پر بھی تارڑ صاحب کے بیان کیے گئے زنانہ کرداروں میں جپسی اور ناژلا سعد سب سے زیادہ پسند ہیں اور مردانہ کرداروں کو تارڑ صاحب ویسے بھی گھاس نہیں ڈالتے
میں نے بھی اندلس میں اجنبی میں سے الحمرا میں گزاری رات کے بارے کچھ پڑھنے کی جسارت کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ آئندہ پڑھنا ہو تو تیاری بحرحال پہلے سے کر لینی چاہیے
آخر میں تارڑ صاحب اور خود اپنی تحریر سے حد درجہ محبت کرنے والے علی عمر نےسنہری الو کے شہر میں سے پڑھا اور میلا لوٹ لیا، جتنی علی عمر کی تحریر جاندار ہوتی ہے ویسا ہی ان کا پڑھنے کا انداز خوبصورت، تارڑ صاحب کی تحریر اور علی عمر کے انداز نے ہمیں بھی دلی کی گلیوں میں لیجا کھڑا کیا
اس دوران عثمان صاحب فون پر ہی ہڑپہ کے کھنڈرات میں اپنا ورچوئل آفس سجائے روحوں کو پریشان کرتے رہے کی یہ کون ہے جو خود سے ہی باتیں کیے جاتا، کسی چالاک روح نے دوسری کو بتایا ہو گا کہ یہ کوئی پہنچے ہوئے بابا ہیں جو کان سے کوئی چیز لگائے ہمیں قابو کرنے کا منتر پڑھے جاتے ہیں، کچھ روحیں تو قابو ہونے پر بضد تھیں پر عثمان بھائی نے معاف کیے رکھا، یہ بھی ہو سکتا کہ وہ باقیوں سے زیادہ پرانے ہڑپہ کے دور میں پہنچ چکے ہوں اور منڈی میں کھڑے ہو کر ہڑپہ کی گندم کے موہنجودڑو اور ٹیکسلا میں سودے کر رہے ہوں، اللہ ہی جانے
تکیہ تارڑ کے کامیاب انعقاد پر سمیرا انجم نے کچھ عربیانہ مراکشنہ ٹائپ کی مٹھائی سے منہ میٹھا کروایا اور اب وقت تھا کوچ کر جانے کا ، واپسی پر سنت تارڑ زندہ کرتے ہوے ٹریکنگ کا شوق پورا کیا گیا اور اور ہڑپہ کے ٹیلوں پر چڑھائی کی گئی۔ اوپر سے نیچے کا نظارہ واقعی شاندار نظر آتا ہے
توازن قائم رکھنے کی بھرپور ذہنی کشمکش میں گزرا ایک خوبصورت سنہرا دن
اس ہمیشہ یاد رہنے والے دن اور کتاب سے دوبارہ جوڑ دینے کے لیے شکریہ متاثرین تارڑ، آباد رہیے

No comments:

Post a Comment