Monday 11 January 2016

ہائے ری میری جمہوریت

جمہوریت جنابِ والا جمہوریت، مستقبل اس ملک کا ہے تو صرف جمہوریت پر یہ جمہوریت ہے کیا بلا
خود اپنی بات کروں تو ناچیز کا دماغ جمہوریت کے معاملے میں 51 فیصد پر آ کے اٹک جاتا ہے، کچھ سادہ سے حساب کتاب ظاہر کرتے کے 8 کروڑ میں سے 4 کروڑ ووٹ اور 20 کروڑ میں سے 10 کروڑ لوگوں کی حمایت اکثریت یا جمہوریت کہلائی جائے گی پر ہر بات کی طرح یہاں بھی میرے وطن کے انداز نرالے، اس پر زیادہ بات کرنے سے چونکہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی تو بہتر خود اپنا منہ بند رکھ کہ علمائے جمہوریت سے مشورہ لیا جائے
تو کیا فرماتے دانشورانِ آزاد میڈیا و فیس بک و ٹویٹر بارے اس مسئلے کے؟
معلوم نہیں۔
خیر جمہوریت کے لیے مزید خطرہ بننے سے بہتر ہے جو بھی ہے، جیسی بھی ہے، " جہاں" بھی ہے (ہے بھی یا••••••) پر قناعت کیا جائے کہ اس سے بہتر جو آپشن مارکیٹ میں مل رہا اس سےہماری لنگڑی لولی دوشیزہ ہزار گنا بہتر ہے
لیکن یہ کیسی جمہوری دوشیزہ ہے جسے ہر وقت کوئی نا کوئی خطرہ لاحق رہتا ہے۔
کوئی نا کوئی "پلے بوائے" یا بوٹڈ بوٹڈ "کاؤ بوائے" ہمہ وقت چھیڑ خانی سے باز کیوں نہیں آتا

"چھیڑ خانوں" کو تو ہم ہر وقت روتے پیٹتے ہیں (اور تقریباً سچا روتے پیٹتے ہیں) پر کوئی تو غلطی اس دوشیزہ کی بھی ہو گی ہمارے سیاستدان کیوں خود اپنی اداؤں پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت کا راستہ عوامی satisfaction سے گزرتا ہے حضور والا آپ ڈلیور نہیں کریں گے تو عوام کسی اور سے امید تو لگائے گی نہ۔ اس کا حل آپ اور صرف آپ ہی کر سکتے ہیں تو کر گزریئے حضور۔ میٹرو بسیں سر آنکھوں پر، بلکل وقت کی ضرورت لیکن ان سے باہر بھی آئیے گراونڈ رئیلٹی کچھ اور بھی تقاضے کرتی ہے۔ تعلیم، صحت بہت سے مسائل، یقین مانیں کچھ بھی نہیں کیا آپ نے ابھی تک۔ سلامابادی دانشوروں اور ڈاکٹر رانجھوں والی نہریں مجھے نہیں پتا کہاں بہتی ہیں زمینی حقائق تو کچھ اور کہانی سناتے۔
۔ ۔ ۔ ہزاروں مسئلے ایسے کہ ہر مسئلے پر دم نکلے
چلیں "دشمنوں" کی بات چھوڑیں ایویں دوست ناراض ہوتے اپنی بات کرتے ہیں
محترم قبلہ عمران خان صاحب آپ کو تو معلوم ہی ہو گا ہم "پھر" ہار چکے ہیں تو سرکار اب دھاندلی کی سائیکل سے اتر آئیے نا، کچھ اور ٹرائے کرتے ہیں۔
حضرت آپ کو خود پر یقین ہو نا ہو پر آپ سے ہمیں اب بھی امید ہے۔ ہزار بونگیوں اور لاکھ اختلاف کے باوجود۔ وجہ سادہ سی ہے کہ آپ اقتدار میں آ سکیں یا نا پر آپکے ڈر سے گورنمنٹ کچھ نا کچھ کام تو کرتی ہے۔ آئی نو میرے پٹواری دوست اتنی سی گنجائش دینے کو بھی تیار نہیں۔
اور کچھ دوست جن کے "ہاسوں" کے بیک گراؤنڈ میں سے حسن نثار "چاتیاں" مار رہا ہوتا وہ بھی اس کو ہماری جہالت سمجھتے ہیں پر ابھی تک تو حالات یہی ہیں
تو قبلہ عمران خان صاحب صاف ستھری سیاست کا "ڈرامہ" چھوڑئیے اور مان لیجیے آپ اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، تنظیم سازی اور 2018 کے لیے ابھی سے امیدواروں کا انتخاب اور "خاموشی"، امید ہے نتائج مختلف ہوں گے، بس خاموش رہیے بولنے کو ہمارے تجزیہ نگار ہی بہت ہیں
بقول ایک دوست کے ہم 18 کروڑ تجزیہ نگار ہیں۔ ہر مرض کا شافی علاج پر بعض دفعہ ہم مرض بھی خود ہی پیدا کر لیتے ہیں آخر کچھ تو ہو جس سے گلشن کا کاروبار چلے، سب سے اچھی بات ہمارے تجزیہ نگاروں کی یہ کہ یا تو بلکل ساس ہوتے ہیں یا بلکل بہو، یعنی غلطی کی ذرہ گنجائش نہیں ہر دفعہ مکمل صحیح ہوتے ہیں
تو ان عالموں کو گلشن کا کاروبار چلانے دیتے باقی نواز عمران زرداری والا شغل میلا تو لگا رہنا۔ انجوائے کرتے ہیں، سیریس ہو کر اس جی کا جلانا کیا

No comments:

Post a Comment